Introduction of Mian/Syed Post by Mian Prince Amir Hamza (Lilownai)
مختصر تاریخ میاں گان/ سیدان- سادات
میاں (میاں گان-جمع)
سید (سیدان- سادات -جمع)
تحریر و تحقیق: میاں نثار علی
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالی جاۓ تو انسان کم حاضر دماغی کے ساتھ ساتھ چیزوں کو بھولتا ہوا پایا گیا ہے. انسان اپنی تاریخ بھول کر مادی فوائد میں مشغول ہوتا ہوا پایا گیا ہے. دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ جن قوموں اور قبیلوں نے اپنی تاریخ کو نظر انداز کیا ہے. وہ تاریخ کے سفحوں سے مٹ چکے ہیں.
میاں (میاں گان-جمع) سید (سیدان/سادات -جمع) کا شجرہ نسب حضرت محمد ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراؓ اور نواسے حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ سے جا ملتا ہے. تمام میاں گان، سیدان-سادات چاہے وہ حسنی ہو یا حسینی وہ اہلِ بیت/آل رسول ہیں۔ قرآنِ مجید میں مذکور اہلِ بیت سے مراد رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد، سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اور سیدنا حسنین کریمین علیہما السلام ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام زریات طیبات حضرت قاسمؓ، حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ، حضرت عبد اللہؓ، حضرت فاطمہؓ اور حضرت ابراہیمؓ اہل بیت نبوی میں داخل و شامل ہیں. یہ الگ بات ہے کہ آپ کی نرینہ اولاد کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چاروں صاحبزادیاں زندہ رہیں. حضرت ام کلثومؓ کو چھوڑ کر باقی تمام صاحبزادیاں صاحب اولاد ہوٸیں، لیکن حضرت فاطمہؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک نسل چل رہی ہے۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان موجود ہے وہ حضرت فاطمہؓ کے دو فرزند حضرت حسنؓ و حسینؓ کی ہی نسل سے ہیں، حالانکہ حضرت فاطمہؓ کی پانچ اولادیں تھیں دو صاحبزادیاں حضرت زینبؓ اور حضرت ام کلثومؓ اور تین فرزند حضرت محسنؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ لیکن سادات کی نسل صرف حضرت حسنؓ و حسینؓ سے چلی۔ حضرت محسنؓ کا انتقال بھی بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔
رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:”حسن و حسین میرا رزق ہیں“، بتادیا کہ یہ رہیں گے اور ان کی وجہ سے میری ال نسل اور زریت چلے گی، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ آپ کی صاحبزادی سے جو نسل چلی وہ آپ کی نسل سمجھی گٸ ورنہ عام قاعدہ یہ ہے کہ انسان کی نسل اس کے بیٹوں سے چلتی ہے۔ حضرت فاطمہ ؓ کی جو اولاد ہیں ان سے حضور کی نسل چلی اور انہیں کو سید کہا جاتا ہے اور سید کہنے کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات حسنینؓ کو ”سیدا شباب اہل الجنة“ یعنی جنت کے نوجوانوں کے سردار کا لقب عطا فرمایا، اسی مناسبت سے ان کی نسل کو سید کہا جاتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل قیامت تک موجود رہے گی۔
حدیث کی متعدد روایات جن کو ابنِ کثیر نے نقل کیا ہے اس پر شاہد ہیں کہ اہلِ بیت میں حضرت فاطمہ زہراؓ اور علی کرم اللہ اور حضرت حسنؓ و حسینؓ بھی شامل ہیں، جیسے ’’صحیح مسلم‘‘ کی حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت حسنؓ آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا پھر حضرت حسینؓ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ اس چادر میں داخل ہوگئے، پھر حضرت سیدہ فاطمہ زہراؓ آئیں اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اس چادر میں داخل کرلیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ آئے تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھرسورہ احزاب کی آیت نمبر33 تلاوت فرمائی۔
(إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً) (بےشک خداوند عالم چاہتا ہے کہ اے (رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہل بیت تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک ونقص کی گرد تک) دور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے)
لفظ "میاں یا سیّد " کے لغوی معنی سردار، آقا، مالک, بزرگ، چیف، قا بل احترام وغیرہ ہیں, اورمسلمان احتراماً یہ لفظ حضور سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دونوں نواسوں ،امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد پاک کے لیے بولتے ہیں۔ نیز اہلِ عرب سادات کے لیے لفظ’’شریف‘‘استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ علماء و فقہاء کی عبارات سے واضح ہے۔ صدرِ اول (شروع زمانے) میں عباسی،علوی وغیرہ تمام بنوہاشم کو شریف (سیّد) کہا جاتا تھااور یقیناً تمام مسلمانانِ بنوہاشم نبی کریم ﷺ کی نسبت ہاشمی کا شرف رکھتے ہیں، لیکن بعد میں شریف(سیّد) کا لفظ بطورِ خاص حضرت سیدنا امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد پاک کے لیے بولا جانے لگااورآج تک عرب و عجم کے عرف میں اسی معنیٰ کےاعتبار سے شریف اورسیّد کالفظ استعمال کیاجاتاہے، لہٰذا حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے علاوہ کسی ہاشمی (عباسی، علوی، قریشی وغیرہ) کا اپنے آپ کو سیّد کہنا یا کہلوانایا اپنے نام کی ابتدا میں سیّد لکھنا، پاک و ہند اور اس طرح کے دیگر ممالک کے عرف کے مطابق درست نہیں، کیونکہ کسی کے نام کے ساتھ سیّد کا ٹائٹل (عنوان) لگا ہوا ہو، تو فوراً ذہن اسی طرف جاتا ہے کہ یہ حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے ذریعے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسل پاک میں سے ہے، جبکہ عباسی یا علوی وغیرہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اولاد میں سے نہیں ہیں۔
تفصیل شجرہ نسب پاپینی میاں گان (سیدان-سادات)
" اُنْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُـمْ عَلٰى بَعْضٍ ۚ وَلَلْاٰخِرَةُ اَكْبَـرُ دَرَجَاتٍ وَّاَكْبَـرُ تَفْضِيْلًا "
سورۃ الإسراء/بني اسرائيل آیت: 21
(ذرا دیکھو تو کہ ہم نے بعض لوگوں کو بعض پر کیسی فضیلت دی ہے اور آخرت کے درجے تو کہیں بڑھ کرہیں اور وہاں کی فضیلت بھی تو کہیں بڑھ کر ہے)
حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
(قیامت کے دن ہر حسب و نسب منقطع ہوجائے گا بجز میرے حسب ونسب کے)
ارشاد امیر المومنین علی کرم اللہ
(جسے اس کے اعمال پیچھے ہٹادیں اُسے اُس کا نسب آگے نہیں بڑھا سکتا)
پاپینی میاں گان (سیدان/سادات) کا شجرہ نسب حضرت محمد ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراؓ اور نواسے حضرت امام حسنؓ کے صاحبزادے سید حسن المثنیٰ (قریشی و ہاشمی) سے جا ملتا ہے.
حضرت فاطمہ زہراؓ - حضرت امام حسنؓ - سید حسن المثنیٰ – سید عبدللہ المخلص - سید محمد (النفس الزکیہ)- سید عبدللہ کابلی - سید محمد اصغر - سید حسن نقیب - سید قاسم - سید ابوجعفر - سید عیسی -سید یوسف - سید رشید احمد غزنوی - سید قطب الدین - سید نظام الدین - سید رکن الدین - سید احمد - سید محسن - سید فخرالدین - سید نجم الدین - سید خواجہ بدرالدین - سید شاہ قران - سید بابو جان -سید دربانی - سید محمد کلان - سید شاہ مخان - سید شاہ دالدین - سید محمد ریحان- میاں محمد شریف (پاپین- افغانستان)
پسران میاں محمد شریف
1- میاں محمد صدیق - لیلونڑئی/ ڈڈھرہ (گاؤں لیلونڑئی اور ڈڈھرہ کے پاپینی میاں گان ان کی نسل سے ہیں)
2- میاں محمد ابا یوسف المعروف ابا صاحب-نجیگرام (گاؤں نجیگرام کے پاپینی میاں گان ان کی نسل سے ہیں)
3- میاں محمد صادق - گاؤں بنکڈ - ضلع کوہستان
میاں محمد صادق
پسران میاں محمد صادق
1. میاں دوست محمد (المعروف انگنڑ بابا)-394---ھجری-پاپین-افغانستان/سیدوشریف سوات (سیدوشریف کے پاپینی میاں گان ان کی نسل سے ہیں)
2. میاں مکرم شاہ (المعروف میاں بابا) 405- 497-ھجری - 1014- 1106-عیسوی پاپین-افغانستان / سوات-پاکستان (گاؤں سیرائی/گلی گرام)
پسران- میاں مکرم شاہ (المعروف میاں بابا)
(1) میاں محمد اسماعیل (2) میاں محمد حسین
(گاؤں سیرائی/گلی گرام (بابوزئی-سوات) گاؤں اوپل (چکیسر-شانگلہ) اور گاؤں چھڑئی (وادی غوربند -شانگلہ) کے پاپینی میاں گان ان کی نسل سے ہیں)
سن 1048 عیسوی میں محمود غزنوی (پورا نام: یمینا لدوله ابوالقاسم محمود بن سبکتگین) خاندان کے شاہی فوج نے (دور حکمرانی/مودود-لقب شهابالدوله مودود-المعروف-مودود غزنوی-1041- 1050 عیسوی) سوات پر حملہ کیا جس میں ان کے سپہ سالار پیر خوشحال نے کلیدی کردار ادا کیا اورسوات میں بدھ مت کے آخری حکمران راجا گیرا (جو موجودہ شمالی پاکستان کے علاقوں سوات وغیرہ کا طاقتور اور خوشحال بادشاہ شمار کیا جاتا تھا) کی بادشاہت کو صفا ہستی سے مٹا دیا.
بدھ مت کے آخری حکمران راجا گیرا کی بادشاہت سوات سے ختم کرنے اور یہاں اسلام کی داغ بیل ڈالنے کیلئے جہاں اعلی پائے کے شمشیر زن ان کے ساتھ غزنی (ننگرہار-افغانستان) سے سوات ائیے تھے وہاں اعلی پائے کے علماء اور مفھمین اسلام بھی ائے تھے تاکہ راجا گیرا کے شکست کے بعد یہاں قرآن کو دستور اور اسلام کو طریقہ کار والی نظام کی بنیاد ڈال کر لوگوں کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ انصاف فراہم کیا جاسکے. ان ہی علماء اور مفھمین اسلام میں معروف عالم دین اور صوفی بزرگ میاں دوست محمد (المعروف انگنڑ بابا) اور ان کے چھوٹے بھائی میاں مکرم شاہ (المعروف میاں بابا) بھی شامل تھے جو سلطان محمود غزنوی خاندان کےشاہی لشکر کے ساتھ افغانستان کے علاقے پاپیں ( ولایت ننگر ہار) سے سوات ائے تھے.
سلطان محمود غزنوی خاندان کا شاہی لشکر راجا گیرا کے شکست کے بعد واپس غزنی (افغانستان) چلا گیا تھا. لیکن میاں دوست محمد (المعروف انگنڑ بابا) اور ان کے چھوٹے بھائی میاں مکرم شاہ (المعروف میاں بابا) اور دیگر علماء اور مفھمین اسلام نے سوات کو علم کے نور سے منور کرکے یہاں پر عدل، انصاف، مساوات اور اسلامی بھائی چارے کے بنیاد پر ایک پر امن معاشرے کی داغ بیل ڈالی. میاں مکرم شاہ (المعروف میاں بابا) ایک بہترین شمشیر زن بھی تھے اور راجا گیرا کے خلاف سلطان محمود غزنوی کے شاہی خاندان کے جنگی لشکر میں باقا عدہ شریک ہوے، اور راجا گیرا کی بادشاہت کو نیست و نابود کرنے میں اہم کردار ادا کیا. میاں مکرم شاہ (المعروف میاں بابا) نے اپنے بڑے بھائی اور اس وقت کے مذہبی سکالر اور معروف صوفی بزرگ میاں دوست محمد (المعروف انگنڑ بابا) کے علم سے فیض حاصل کیا اور ایک اعلیٰ پائے کے عالم دین کے ساتھ ساتھ تصوف کے اعلی مقام پر پہنچ گئے.
سن 1520 عیسوی میں یوسفزئی قبیلے کی سوات آمد ہوئی یہ وہ زمانہ تھا کہ سوات کو بدھ مت اور دیگر غیر اسلامی اثرات سے مکمل طور پر پاک کیا گیا تھا. سوات میں یوسفزئی قبیلے کے آمد سے تقریباَ 400 سو سال پہلے سوات میں ایک پرامن اور مکمل اسلامی معاشرے کے تشکیل میں میاں دوست محمد (المعروف انگنڑ بابا) اور ان کے چھوٹے بھائی میاں مکرم شاہ (المعروف میاں بابا) کا کردار تاریخ کے اوراق میں نمایا رہا ہے. ان أولياء الله کے علاوہ ان کے مریدین اور دیگر علماء نے سوات کو جنگ جدل، شر فساد اور غیر اسلامی رسومات سے پاک دین اسلام کی ایک مرکزی جگہ بنائی تھی.
میاں دوست محمد (المعروف انگنڑ بابا) کا مزار شریف واقع سیدوشریف اور میاں مکرم شاہ (المعروف میاں بابا) کا مزار شریف واقع سیرائی/گلی گرام (وادی مرغزار-سوات) جہاں کئی فرزندان اسلام دور دراز کے علاقوں سے زیارت کیلئے اتے ہیں جس سے ان کی عظیم شخصیتوں اور اللہ تعالی کے برگزید بندوں کا واضح ثبوت ملتاہے. چونکہ میاں دوست محمد (المعروف انگنڑ بابا) اور میاں مکرم شاہ (المعروف میاں بابا) میاں محمد شریف (پاپینی) کے پوتے تھے اس لئے ان کے پوتوں کو (آباد: سیدو شریف - سیرائی/گلی گرام-) اوپل (چکیسر-شانگلہ) اور چھڑئی (غوربند-شانگلہ) پاپینی میاں گان کہتے ہیں. اس طرح میاں محمد شریف (پاپینی) کے دیگر پوتوں کو جو میاں محمد صدیق ( آباد: ليلونڑئی/ ڈڈھرہ) اور میاں محمد ابا یوسف (آباد: نجیگرام) کی نسل سے ہیں ان سب کو پاپینی میاں گان کہتے ہیں.
پوری دنیا میں جہاں بھی میاں گان آباد ہیں خاص کر پاکستان اور افغانستان میں لوگ ان کے آباواجداد کی متقی نژاد ہونے کی وجہ سے انتہائی عزت و احترام کرتے ہیں. میاں گان کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے اور یہ نام مختلف علاقوں میں ان کی سکونت کی وجہ سے معروف ہیں. مثـلآ: پاپینی میاں گان، اخونخیل میاں گان، کاکاخیل میاں گان، حاجی خیل میاں گان, مداخیل میاں گان وغیرہ.
پاکستان میں میاں گان خیبرپختونخوا اور پنجاب میں نسبتاً زیادہ آباد ہیں لیکن سندھ، بلوچستان، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی میاں گان پائے جاتے ہیں. میاں گان کی سلسلہ نسب میں عزت و تکریم کیلئے أسماء کے ساتھ سید (سیدان/ سادات-جمع) استعمال کیا جاتا رہا ہے. اسلام کے شروع کے تاریخ میں جن عربوں کا تعلق حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کے خاندان سے تھا انہوں نے "سید-مرد-سیدہ-زن" الفاظ اپنے أسماء کے ساتھ لگائے اور بعد میں اسی خاندان کے لوگوں نے جب افغانستان اور برصغیر پاک و ہند میں اسلام کے ترویج کے لیے سکونت اختیار کی تو "سید-مرد اور سیدہ-زن" "میاں-مرد اور میاھہ-زن" کے الفاظ اپنے ناموں کے ساتھ لگائے. آج کے دور میں عربوں میں"سید-مرد-سیدہ-زن" اور عجموں میں "سید-مرد-سیدہ-زن" "میاں-مرد-میاھہ-زن" زیادہ معروف ہے.
پاکستان میں بعض لوگوں نے جن کا تعلق "میاں" یا "سید" خاندان سے دور دور تک نہیں ہے یہ خاندانی نام اپنی عزت و تکریم کیلئے چرا لیے ہیں اور تاریخ میں خودساختہ تبدیلی کرکے اپنے اپ کو میاں گان-سیدان/ سادات ظاہر کرتے ہیں. ایسا کام زیادہ تر ان لوگوں نے کیا ہیں جو ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل ہوگئے ہیں اور اپنے مال و متاع اور اثر و روسوخ کے بنیاد پر اپنے نیک نامی کیلئے اپنے نام کے ساتھ "میاں" یا "سید" لگاچکے ہیں.
قرآن مجید میں سورة الحجرات میں اللہ تعالی فرماتے ہیں.
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ.
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے.
اپنے نام کے ساتھ ویسے "میاں" یا "سید" لگانے سے کوئی میاں یا سید نہیں بن جاتا. جیسے بڑی پگڑی باندھنے سے کوئی عالم یا سکالر نہیں بن جاتا.
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم.
Comments
Post a Comment